ڈان اخبار کی خبر کے مطابق انٹرنیشنل کیریئر میں اپنا واحد میچ آسٹریلیا کے خلاف کھیلنے والے فاروق حامد نے واحد وکٹ 1964 میں میلبرن کے مقام پر ای این چیپل کی لی تھی۔
انہوں نے ڈان کو اپنے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ میرے تمام ساتھی کھلاڑی جانتے ہیں کہ مجھ سے میرے کپتانوں نے کس طرح کا رویہ رکھا اور اس میں سرفہرست عظیم بلے باز حنیف محمد اور ان کے بھائی وزیر محمد ہیں جنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میں دورہ آسٹریلیا کے بعد دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ نہ کھیل سکوں۔
انہوں نے کہا کہ دورہ نیوزی لینڈ پر جب میں نے ویلنگٹن کے خلاف میچ میں صرف 16رنز دے کر 7 وکٹیں لیں تو انہیں صرف 53 رنز پر 10 اوورز کے اندر ڈھیر کردیا تھا لیکن ہر کسی کو حیرت ہوئی کہ دو دن بعد اسی مقام پر کھیلے گئے میچ میں مجھے پاکستانی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا گیا، نہ ہی اس سیریز میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گئے بقیہ دونوں ٹیسٹ میچوں میں مجھے ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔
انہوں نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ 1963 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستان ایگلٹس کا میں بھی رکن تھا، میں نے تین اوورز میں پانچ وکٹیں لیں لیکن کپتان وزیر محمد نے مجھے انچسٹر میں لنکاشائر کے خلاف دوبارہ باؤلنگ نہ دی، بعدازاں سیکریٹری ایم سی سی ہوورڈ نے میرے منیجر سے کہا کہ آج فاروق میچ میں ٹرومین سے ایک گز تیز باؤلنگ کر رہے تھے۔
انہوں نے مایوس کن انداز میں کہا کہ یہ اور اس طرح کے دیگر رویوں سے دلبرداشتہ اور مایوس ہو کر انہوں نے نوجوانی میں کرکٹ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اپنی خطرناک باؤنسر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی کرکٹ کی عروج کے دنوں میں ان کی باؤنسر بہت تباہ کن تھی اور بہت سے بہترین بلے بازوں کے لیے اسے کھیلنا ناممکن تھا، قائد اعظم ٹرافی کے میچ میں ان کا باؤنسر وزیر محمد کے منہ پر لگا تھا جس سے ان کے سامنے کے چاروں دانت ٹوٹ گئے تھے اور ہونٹوں پر 10 ٹانکے آئے تھے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ 1969 میں قائد اعظم ٹرافی کے فائنل میں ان کا سامنا کرتے ہوئے حنیف محمد تیسری ہی گیند پر ان سوئنگ یارکر پر باؤلڈ ہو گئے تھے، سر ڈان بریڈ مین، ظہیر عباس، امتیاز احمد سمیت دیگر بین الاقوامی کرکٹ کی ہستیاں انہیں اس وقت دنیا کا تیز ترین باؤلر اور ویسٹ انڈیز کے چارلی گریفتھ سے بھی تیز سمجھتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صف اول کے متعدد بلے باز ان کی باؤنسر سے ڈرتے تھے لیکن سابق ٹیسٹ بلے باز محمد الیاس ان چند کھلاڑیوں میں سے تھے جو بہتر تکنیک کی وجہ سے ان کے باؤنسر کا سامنا کر پاتے تھے، جب 1963 میں کامن ویلتھ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو گریفتھ کے خلاف ہُک کرنے والے بہترین بلے باز ثابت ہوئے تھے۔
فاروق نے بتایا کہ مذکورہ دورے میں انہوں نے روہن کنہائی کو اپنے باؤنسر سے زمین بوس کردیا تھا، بعدازاں کمنٹیٹرز نے کہا تھا کہ میں گریفتھ سے بھی تیز باؤلنگ کرتا ہوں، میرے خیال سے میں اس وقت 110-115 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے باؤلنگ کرتا تھا۔
سابق فاسٹ باؤلر نے بتایا کہ حتیٰ کہ دورہ آسٹریلیا کے دوران سر ڈان بریڈ مین نے بھی بحیثیت فاسٹ باؤلر ان کو سراہا تھا اور ایڈیلیڈ میں سنچری پر تعریف بھی کی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا جارحانہ رویہ ان کے مختصر بین الاقوامی کیریئر کی وجہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہر فاسٹ باؤلر کو جارح مزاج ہونا چاہیے، یہ ٹیم مینجمنٹ کا کام ہے کہ وہ فاسٹ باولرز کو احتیاط سے استعمال کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہی سیاست اب بھی جاری ہے لیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آل راؤنڈر عمران خان ہمارے وزیر اعظم ہیں اور امید ہے کہ ان کے زیر سایہ کرکٹ بہتر ہو گی، تاہم اگر وہ بھی ہمارے کرکٹ کے نظام کو ٹھیک نہ کر سکے تو صرف خدا ہی ہماری کرکٹ بچا سکے گا۔
سابق کرکٹر نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان کرکٹ تباہ ہو گی اور اسے ختم کرنے کے بجائے ڈپارٹمنٹس کو انڈر 19 اور انڈر16 ٹیمیں بنانے کی ہدایت کرنی چاہیے تھی کیونکہ ان کے پاس پیشہ ورانہ انداز میں کھلاڑیوں کی صلاحیتیں نکھارنے کا نظام موجود ہے جو ایل سی سی اے اور کے سی سی اے کے کے پاس نہیں، ڈپارٹمنٹل کرکٹ پاکستان کرکٹ کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اسے ہر حال میں بحال ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی ٹیم اس وقت بین الاقوامی کرکٹ میں اوسط درجے کی کارکردگی دکھا رہی ہے اور ہمیں یہ توقع نہیں کرنہی چاہیے کہ یہ جلد ورلڈ کلاس ٹیم میں تبدیل ہو جائے گی، ہمارے پاس کوئی بھی تیز رفتار باؤلر نہیں، نسیم شاہ تیز ضرور ہیں لیکن اگر معیار کی بات کی جائے تو وہ ایک اوسط درجے کے باؤلر ہیں۔
فاروق کی بہن طاہر حامد نے بھی پاکستان میں 1978 میں ویمن کرکٹ ایسوسی ایشن کے قیام کی بنیاد رکھی اور وہ ایسوسی ایشن کی پہلی سیکریٹری تھیں۔