فیفا ورلڈ کپ 2022ء اب تک کا مہنگا ترین ٹورنامنٹ کیوں ہے؟

0
463

کسی بھی ملک کے لیے فیفا ورلڈ کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹ کا انعقاد کروانا آسان ہدف نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ٹورنامنٹ کے میزبان ملک (یا ممالک) کا اعلان 8 سے 10 سال پہلے ہی کردیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی تیاریاں مطلوبہ وقت تک مکمل کرسکیں۔

ہرعالمی کپ پر ہونے والے اخراجات، گزشتہ کے مقابلے میں عموماً زیادہ ہی ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی کپ کے انعقاد کے لیے زیادہ اخراجات کن چیزوں پر آتے ہیں؟

عالمی کپ میں آنے والے اخراجات

جب فیفا کسی ملک کو میزبانی کے لیے نامزد کرتا ہے تو کئی سال پہلے نامزدگی کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اخراجات کا تخمینہ لگایا جاسکے۔ عالمی ایونٹ کے میزبان ملک کو اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش پر بھی کام کرنا ہوتا ہے۔ اگر اسٹیڈیمز کی تعداد کم ہو تو نئے اسٹیڈیم بنانے پڑتے ہیں۔ سیاحوں کی بڑی تعداد کی رہائش کا انتظام اور شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کرنا ہوتا ہے تاکہ میچ دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں پر اس ملک کا تاثر اچھا پڑے۔

تصویر: اے ایف پی/ فائل

ابتدائی اخراجات تو فیفا فراہم کرتا ہے تاکہ کام کا آغاز ہوسکے لیکن دیگر اخراجات میزبان ملک کے ذمہ ہوتے ہیں۔ میزبان ملک اس سوچ کے ساتھ سرمایہ کاری کرتا ہے کہ اس عالمی کپ سے اس کی معیشت مضبوط ہوگی۔ ساتھ ہی دیگر ممالک بھی میزبان ملک میں منافعے کی غرض سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ کُل بجٹ میں وہ رقم بھی شامل ہوتی ہے جو ٹیموں، کھلاڑیوں اور فیڈریشنز کو انعامات کی مد میں دی جاتی ہے۔

ماضی میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ کا بجٹ کیا تھا؟

یہ ایک الگ بحث ہے کہ ورلڈ کپ کے انعقاد کے بعد بڑھنے والی سیاحت اور سرمایہ کاری سے میزبان ملک کی معیشت کس حد تک مضبوط ہوتی ہے۔ پہلے ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ماضی میں جو عالمی کپ منعقد ہوئے ان کی تیاری کے لیے کتنا بجٹ مختص کیا گیا تھا۔

1990ء سے قبل، فیفا میزبان ممالک کے اخراجات نہیں بتایا کرتا تھا لیکن اب ایونٹ سے پہلے ہی کس چیز پر کتنا خرچہ آرہا ہے سب کی فہرست انٹرنیٹ پر باآسانی مل جاتی ہے۔ گزشتہ عالمی کپ پر ہونے والے اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو کچھ اس طرح کے اعداد و شمار ہمارے سامنے آتے ہیں:

عالمی کپ کی ٹرافی — تصویر: اے ایف پی

عالمی کپ کی ٹرافی — تصویر: اے ایف پی

1990ء کا ورلڈ کپ

اٹلی میں منعقد ہونے والے عالمی کپ کا بجٹ 4 ارب ڈالر تھا جبکہ ہوٹلوں، کٹس، ٹکٹوں کی فروخت اور سیاحت کی مد میں اٹلی نے بھاری منافع بھی کمایا۔

1994ء کا ورلڈ کپ

حیرت انگیز طور پر امریکا میں منعقد ہونے والے اس ورلڈ کپ میں گزشتہ عالمی کپ سے بھی کم اخراجات ہوئے۔ مجموعی طور پر ایونٹ کی تیاری پر 50 کروڑ ڈالرز کی لاگت آئی۔

1998ء کا ورلڈ کپ

اس کے بعد اگلے فیفا کپ کی میزبانی فرانس نے کی۔ ہوٹلوں، شائقین کے قیام اور ثقافتی سرگرمیوں، اسٹیڈیم کی گنجائش بڑھانے سمیت 1998ء کے ورلڈ کپ پر 2 ارب 33 کروڑ ڈالر کا بجٹ خرچ ہوا۔ فرانس میں 10 مقامات پر میچ کھیلے گئے جس وجہ سے میچ اور پروازوں کی ٹکٹوں کی فروخت میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا۔

2002ء کا ورلڈ کپ

جنوبی کوریا اور جاپان نے 2002ء کے عالمی کپ کی مشترکہ طور پر میزبانی کی۔ نئے اسٹیڈیمز کی تعمیر سمیت اس ایونٹ پر 7 ارب ڈالر کی لاگت آئی اور شائقین کی بڑی تعداد کی شرکت کے باعث مقامی فٹبال فیڈریشنز نے غیرمتوقع منافع کمایا۔

2006ء کا ورلڈ کپ

اگلا عالمی کپ جرمنی میں منعقد ہوا اور اس میں بھی حیران کن طور پر پچھلے کے مقابلے میں کم اخراجات ہوئے۔ اس پورے ایونٹ میں کُل 4 ارب 60 کروڑ ڈالر کے اخراجات ہوئے۔ لاگت کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کی جرمنی پہلے ہی اپنے ملک میں ہر سال بندسلیگا جیسی بڑی لیگ کا انعقاد کرواتا ہے جس وجہ سے اس ملک میں اسٹیڈیمز کی تعمیر یا تزئین و آرائش پر زیادہ خرچہ نہیں آیا تھا۔

2010ء کا ورلڈ کپ

2010ء کے فیفا عالمی کپ کی میزبانی کے لیے جنوبی افریقہ کو نامزد کیا گیا۔ جنوبی افریقہ کے 9 شہروں میں ایونٹ کا انعقاد ہوا اور اس بار اخراجات مزید کم ہوتے ہوئے لاگت 3 ارب 60 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔ بجٹ کم ہونے کی اہم وجہ یہ تھی کہ جنوبی افریقہ کو میزبان بنانے کا مقصد فٹبال کی کھیل کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینا تھا۔ یہاں فیفا کے لیے منافع کمانے کا امکان کم تھا اس لیے فیفا اور دیگر سرمایہ کاروں نے اسی تناظر میں اس عالمی کپ میں سرمایہ کاری کی تھی۔

2014ء کا ورلڈ کپ

برازیل میں منعقد ہونے والے 2014ء کے عالمی کپ میں اگرچہ میزبانی کا اعلان کافی عرصے پہلے کردیا گیا تھا مگر اس کے باوجود تعمیراتی کام وقت پر نہیں ہوسکے۔ یہی نہیں بلکہ میگا ایونٹ سے عین پہلے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ مظاہرے، عالمی کپ پر ضرورت سے زیادہ اخراجات، غریب بستیوں کو خالی کروانے کے خلاف اور شہری علاقوں سے عسکری افواج کے انخلا کے لیے کیے گئے تھے۔ ان مظاہروں میں ’فیفا گو ہوم‘ کے نعروں کی صدا گونجتی رہی۔ مگر تمام تر تنقید کے باوجود برازیل عالمی کپ اس وقت کا مہنگا ترین ایونٹ تھا جس پر کُل 15 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔

2018ء کا ورلڈ کپ

2018ء میں روس میں منعقد ہونے والے عالمی کپ میں 11 ارب 60 کروڑ ڈالر کے اخراجات آئے۔

قطر میں ہونے والے میگا ایونٹ میں خرچہ اتنا کیوں بڑھ گیا؟

2022ء کے فیفا فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی قطر کے حصہ میں آئی۔ واضح رہے کہ قطر عالمی کپ کی میزبانی کرنے والا پہلا عرب ملک جبکہ دوسرا ایشیائی ملک ہے۔ قطر نے اپنی نامزدگی کے فوراً بعد ہی تیاریوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ جیسے جیسے ورلڈ کپ کا انعقاد نزدیک آرہا ہے، شائقین یہ جان کے حیرت زدہ ہیں کہ قطر میں منعقد ہونے والا یہ عالمی کپ کھیلوں کی دنیا کا مہنگا ترین ٹورنامنٹ ہوگا۔

عالمی کپ میں شرکت کرنے والے 32 ممالک کے جھنڈے قطر کے شہر دوحہ میں لہرا دیے گئے ہیں — تصویر: رائٹرز

عالمی کپ میں شرکت کرنے والے 32 ممالک کے جھنڈے قطر کے شہر دوحہ میں لہرا دیے گئے ہیں — تصویر: رائٹرز

ملک کی آبادی 2 کروڑ 80 لاکھ ہے لیکن ملک کے حجم کی وجہ سے یہ فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے اور یہی وجہ ہے کہ قطر نے عالمی کپ کی تیاری کے لیے دل کھول کر پیسے خرچ کیے۔

قطر ورلڈ کپ کی میزبانی کے اخراجات تقریباً 220 ارب ڈالر بتائے جارہے ہیں۔ یہ روس میں منعقد ہونے والے پچھلے فٹبال ورلڈ کپ کی لاگت سے تقریباً 20 گنا زیادہ ہے۔ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ تاریخ کا مہنگا ترین عالمی کپ ہے؟ ایسا کیا ہے جو قطر کو دیگر میزبان ممالک سے مختلف بنا رہا ہے؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

اسٹیڈیمز کی تعمیر

قطر کے پاس نامزدگی سے قبل ورلڈ کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے لائق عالمی معیار کا کوئی اسٹیڈیم موجود نہیں تھا۔ لہٰذا اسٹیڈیم کی تعمیر پہلا مقصد تھا۔ قطر نے عالمی کپ کے 64 میچوں کے لیے 8 اسٹیڈیمز بنائے ہیں۔ تمام اسٹیڈیم دارالحکومت دوحہ کے 55 کلومیٹر کی حدود کے دائرے میں واقع ہیں جہاں تماشائیوں کی بڑی تعداد کے لیے گنجائش موجود ہے۔

ساتھ ہی قطر وہ پہلا ملک ہے جس نے عالمی کپ کے میچوں کے لیےعارضی اسٹیڈیم بنایا ہے۔ اس اسٹیڈیم کو ’اسٹیڈیم 974‘ کا نام دیا گیا ہے جو قطر کا ڈائلنگ کوڈ بھی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اسے بنیادی طور پر ری سائیکل شدہ مواد سے بنایا گیا ہے اور ان میں زیادہ تعداد شپنگ کنٹینروں کی ہے۔

ورلڈ کپ کے اختتام پر جب اسٹیڈیم کی مزید ضرورت نہیں رہے گی تب اس اسٹیڈیم کو ختم کردیا جائے گا اور تمام ری سائیکل مواد ترقی پذیر ممالک کو عطیہ کردیا جائے گا۔ اس عمل نے قطر پر ہونے والی عالمی تنقید کو کچھ حد تک کم کردیا ہے۔

قطر میں کنٹینروں سے بنا پہلا عارضی اسٹیڈیم — تصویر: رائٹرز

قطر میں کنٹینروں سے بنا پہلا عارضی اسٹیڈیم — تصویر: رائٹرز

تمام اسٹیڈیم کی تعمیر میں تقریباً 6 سے 10 ارب ڈالر کی لاگت آئی جبکہ بقیہ اخراجات قطر قومی پلان 2030ء پر ہوئے۔

قطر قومی پلان 2030ء کیا ہے؟

ورلڈ کپ کا انعقاد قطر کے وژن 2030ء کا حصہ ہے۔ قومی وژن کا مقصد ہے کہ 2030ء تک قطر ایک ترقی یافتہ معاشرہ بن جائے جو اپنی ترقی کو برقرار رکھے اور اپنے لوگوں کے لیے اعلیٰ معیارِ زندگی فراہم کرنے کے قابل ہو۔

یہ پلان انفراسٹرکچر کی تعمیر پر مرکوز ہے جس میں ہوٹلوں کے ساتھ ایک اختراعی مرکز کی تعمیر، ایک جدید ترین سب وے نیٹ ورک اور ہوائی اڈے شامل ہے۔

اس ٹورنامنٹ کے لیے مواصلات کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فاطمہ النعیمی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ان تینوں چیزوں کی تعمیرعالمی کپ کے بعد قطر کی زندگی میں جدت لانے کے وسیع وژن کا حصہ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بڑے منصوبے ہیں جو 2022ء میں ٹیمیں اور شائقین استعمال کریں گے جیسے کہ نئی سڑکیں، سب وے، ہوائی اڈہ، ہوٹل اور دیگر سیاحتی سہولیات کی منصوبہ بندی ہم نے ورلڈ کپ کی میزبانی ملنے سے پہلے ہی کرلی تھیں‘۔

بڑی سرمایہ کاری کے بعد 2019ء میں دوحہ کے سب سے بڑے جدید زیرِ زمین سب وے نظام کا افتتاح کیا گیا جس کی تعمیر پر 36 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔ یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا جو ٹورنامنٹ کے دوران شہر بھر میں تیزی سے سفر کرنا چاہیں گے۔

قطر کے عالمی کپ پر بے جا اخراجات اور تعمیراتی کاموں کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف وریوں نے دنیا کو اس پر تنقید کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

دوسری جانب رہائشی بھی قطر حکومت کی بے پروائی سے نالاں ہیں۔ مہنگی ہوتی اشیا اور رہائش کی وجہ سے بہت سے لوگ پڑوسی عرب ممالک نقل مکانی کر رہے ہیں۔

مگر تمام تنقید اور قیاس آرائیوں کے باوجود قطر پُرامید ہے کہ یہ آنے والا ورلڈ کپ اس کی ثقافت کو ایک نئی پہچان دلانے میں مدد فراہم کرے گا۔ فی الحال، اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ورلڈ کپ 2022ء سے قطر کو کتنا فائدہ ہوگا، لیکن قطرمیں فٹبال کے شائقین کی بڑی تعداد کی آمد متوقع ہے۔

قطر نے 2022ء میں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے اخراجات کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور اب صرف یہ دیکھنا باقی ہے کہ قطر اس عالمی کپ کے انعقاد کے بعد اپنے وژن 2030ء کے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوپائے گا یا نہیں اور اس جیسے دیگر سوالات بھی ہیں جن کے جوابات کے حصول کے لیے ہمیں قطر فیفا عالمی کپ کے اختتام پذیر ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔