اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان اسپورٹس بورڈ کی جانب سے پاکستانی ریسلرز کے میڈل منسوخ کیے جانے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریسلرز کی درخواست پر سماعت کی جس میں عدالت نے پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کی سرزنش بھی کی۔
عدالت نے کہا کہ ڈی جی پاکستان اسپورٹس بورڈ دونوں ریسلرز کے میڈل بحال کروائیں اور تحریری طور پر بتائیں کہ ریسلنگ فیڈریشن کس قانون کے تحت چل رہی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل سردار تیمور اسلم عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے موقف اپنایا کہ ریسلر محمد عمر اور سلیمان نے کامن ویلتھ گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ محمد عمر تعلق پاکستان واپڈا سے ہے اور وہ ریسلر ہیں، کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کو ویزا نہ ملنے پر دونوں ریسلرز نے انفرادی طور پر شرکت کی تھی اور دونوں ریسلرز نے کانسی کا تمغہ جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا تھا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے دوران سماعت سیکریٹری پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ملک کے لیے کام ہو رہا ہے تو فیڈریشن کو کیا مسئلہ ہے، ملک کا نام روش ہوا ہے اور پاکستان کا جھنڈا دنیا میں بلند ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کو دونوں ریسلرز کا معاملہ 30 روز میں حل کرنے کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اسپورٹس بورڈ دونوں ریسلرز کے ساتھ ہونے والی زیادتی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
واضح رہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ نے کامن ویلتھ انتظامیہ کو خط لکھ کر دونوں ریسلرز کے میڈل منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وقف اپنایا گیا تھا کہ یہ ریسلرز پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کے فیصلے کے خلاف محمد عمر اور سلیمان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
یاد رہے کہ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے محمد عمر عرف رستم نے کینیڈا میں 1994 میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔