ثمر خان ایک پروفیشنل سائیکلسٹ ہیں اور وہ 2016 میں گلگت بلتستان میں ساڑھے چار ہزار میٹر بلندی پر واقع قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں بیافو گلیشیئر پر سائیکلنگ کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون بنی تھیں۔
تاہم اب انہوں نے پاکستان میں موجود دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کے بیس کیمپ تک سائیکل کے ذریعے جانے کا دعویٰ کیا ہے، جس پر کئی لوگ انہیں جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔
اگرچہ ثمر خان کی جانب سے کے ٹو کے بیس کیمپ تک سائیکل کے ذریعے پہنچنے کے دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی لیکن حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں مذکورہ کارنامہ سر انجام دینے پر مبارک باد پیش کی گئی، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ثمر خان کا دعویٰ درست ہے۔
وفاقی وزات انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے زیر تحت نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کی جانب سے ثمر خان 16 اگست میں ایک ٹوئٹ کے ذریعے کے ٹو بیس کیمپ تک سائیکل کے ذریعے پہنچنے پر مبارک باد دی گئی۔
این آئی ٹی بی کی جانب سے ثمر خان کی تصویر بھی شیئر کی گئی جب کہ ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ ایتھلیٹ کے ٹو بیس کیمپ پر سائیکل کے ذریعے پہنچیں۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادارے کی جانب سے مبارک باد دیے جانے سے قبل ہی کئی شخصیات نے ثمر خان کی جانب سے کے ٹو بیس کیمپ تک پہنچنے کے دعوے کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے انہیں مبارک باد بھی پیش کی۔
تاہم جہاں کئی شخصیات نے ثمر خان کو سائیکلنگ کا منفرد ریکارڈ اپنے نام کرنے پر مبارک باد پیش کی، وہیں کئی افراد نے ان کے دعوے کو جھوٹا اور مضحکہ خیز بھی قرار دیا۔
لوگوں کی جانب سے کارکردگی کے بجائے اپنی صنف پر تنقید کیے جانے کے بعد ثمر خان نے انسٹاگرام اور سلسلہ وار ٹوئٹس میں تنقید کرنے والوں کو کرارا جواب دیتے ہوئے اپنے دعوے کا دفاع کیا اور کہا کہ بھلے ان کی بات کو مذاق سمجھا جائے مگر انہوں نے بیس کیمپ پر پہنچ کر اپنا خواب پورا کیا ہے۔
ثمر خان نے تنقید کرنے والوں کے الزامات پر اپنی ویڈیوز میں کہا کہ پاکستان کے کچھ فارغ اور بے وقوف لوگوں کو ان کی سائیکلنگ کی مہارت کے بجائے ان کی عمر اور شادی میں زیادہ دلچسپی ہے اور وہ ان سے متعلق جھوٹی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔
انہوں نے بیس کیمپ پہنچنے کے دوران اپنے ایک ساتھی کی تصویر کے حوالے سے ہونے والی چہ مگوئیوں پر کہا کہ وہ ان کی مدد کے لیے ہر وقت ان کے ساتھ تھے اور وہ بیس کیمپ تک پہنچتے پہنچتے زخمی اور نڈھال ہو چکی تھیں۔
ایتھلیٹ کا کہنا تھا کہ ان پر ایسے لوگ تنقید کر رہے ہیں جو کبھی کے ٹو کے قریب پیدل بھی نہیں گئے۔
اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے اور لوگوں کی تنقید کا جواب دینے کے لیے ثمر خان نے سوشل میڈیا پر سائیکلنگ کے ذریعے بیس کیمپ تک جانے کی ویڈیو بھی شیئر کی، جس میں انہیں کے ٹو پر سائیکلنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ثمر خان کی جانب سے کے ٹو کے بیس کیمپ تک جانے کے دعوے کے بعد ٹوئٹر پر ان کا نام ٹرینڈ بھی کرتا رہا اور جہاں لوگ ان کی تعریف کرتے دکھائی دیے، وہیں لوگوں انہیں جھوٹا بھی قرار دیا۔
ہاں یہ بات یاد رہے کہ بیس کیمپ پہاڑی کے اوپر نہیں ہوتا، مذکورہ کیمپس کو کوہ پیما پہاڑوں پر اترنے اور چڑھنے کے دوران آرام یا کسی اور مقصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
عام طور پر یہ کیمپ زمین سے بہت اونچائی پر ہوتے ہیں لیکن ایسے بیس کیمپس پہاڑوں کی بہت اونچائی پر نہیں ہوتے۔
سائیکلنگ کے ذریعے کے ٹو کے بیس کیمپ پر پہنچنے کا دعویٰ کرنے والی ثمر خان کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے لوئر دیر سے ہے، وہ 2016 میں گلگت بلتستان میں ساڑھے چار ہزار میٹر بلندی پر واقع قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں بیافو گلیشیئر پر سائیکلنگ کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون بنی تھیں۔
بیافو گلیشیئر 67 کلو میٹر طویل ہے اور اس کا شمار خطے کے بڑے گلیشئرز میں کیا جاتا ہے۔
بیافو گلیشیئر پر سائیکلنگ سے قبل انہوں نے چار ہزار 693 میٹر سائیکلنگ کا قومی ریکارڈ کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا اور اب تک وہ کئی ممالک میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں۔
ثمر خان کا شمار نہ صرف بلکہ خطے اور دنیا کی نامور سائیکلسٹ ایتھلیٹس میں ہوتا ہے اور انہوں نے کئی اعزاز اپنے نام کر رکھے ہیں۔