پاکستان کے ویٹ لفٹر طلحہ طالب کا اولمپکس مقابلوں کے دوران فاتحانہ انداز

0
547

پاکستان کے نوجوان ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے کہا ہے کہ اگر ایک سال قبل انہیں بروقت سہولیات فراہم کی گئی ہوتیں تو وہ اولمپکس گولڈ میڈل جیت لیتے اور پوری قوم میڈل کا جشن منا رہی ہوتی۔

پنجاب کے شہر گوجرانوالا سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ طلحہ طالب ٹوکیو اولمپکس میں 67 کلو کی کیٹیگری میں حصہ لے رہے تھے اور آخری مرحلے تک گولڈ میڈل کی دوڑ میں شامل رہے۔

پاکستانی نوجوان آخری مرحلے میں پہنچنے کے بعد پانچواں نمبر حاصل کرسکے جبکہ چین کے لیجون چن، کولمبیا کے لوئس جویئر موسکوئیرا لوزانو اور اٹلی کے مرکو زینی نے بالترتیب گولڈ، سلور اور برونز میڈل حاصل کیے۔

طلحہ طالب نے اسنیچ کیٹگری میں 151 کلو گرام وزن اٹھانا اس مرحلے کا دوسرا بہترین نمبر تھا جبکہ 166 کلو گرام کی کلین اینڈ جرک کی پہلی کوشش میں ناکام رہے حالانکہ اگلی کوشش میں اسی وزن کے لیے کامیاب ہوئے اور 170 کلو گرام وزن اٹھایا۔

ڈان نیوز کے پروگرام ‘ری پلے’ میں میزبان عبدالغفار کو ٹوکیو سے خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے طلحہ طالب نے مکمل سپورٹ کرنے پر پورے پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی سپورٹ کی وجہ سے ہی پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن نے میرے اخراجات اٹھائے اور مجھے اس پلیٹ فارم پر آنے کے لیے تیار کیا تاکہ میں پاکستان کی بہترین انداز میں نمائندگی کر سکوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں صرف 2 کلو گرام کے فرق سے اولمپک میڈل نہیں جیت سکا کیونکہ پاکستان میں اس قسم کی سہولیات میسر نہیں ہیں جو بین الاقوامی کھلاڑی استعمال کرتے ہیں، کولمبیا، چین اور ترکی سمیت دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے میرے تمام حریفوں کے پورے سال کیمپ لگتے ہیں اور ان کے آلات بھی عالمی معیار کے ہیں۔

انہوں نے ٹریننگ کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں کھلے آسمان تلے ایک اسکول کے میدان میں ٹریننگ کرتا تھا، میرے پاس سہولیات نہیں تھیں لیکن پھر بھی میں نے اس سطح پر آ کر اچھی سے اچھی پرفارمنس دی لہٰذا اگر مجھے میرے حریفوں کی طرح سہولیات مل جائیں تو امید ہے کہ 2024 کے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر پاکستان کا نام روشن کر سکوں گا۔

اس موقع پر انہوں نے دیگر کھیلوں کے مستحق کھلاڑیوں کو بھی سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں پاکستان کے لیے میڈلز لانے کے لیے ان لوگوں کو شروع سے ہی تربیت اور معاونت فراہم کی جائے اور انہیں مقابلے فراہم کیے جائیں تاکہ وہ تجربہ حاصل کر سکیں۔

پاکستانی ویٹ لفٹر نے اولمپکس مقابلوں کے دوران فلسطین کے کوچ سے مدد لینے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ویٹ لفٹنگ میں دو سے تین کوچز درکار ہوتے ہیں تو فلسطینی کوچ دوستی کی وجہ سے مدد کے لیے آ گئے تھے لیکن یہ تاثر درست نہیں کہ مجھے وہاں کوئی کوچ میسر نہیں تھا۔

مستقبل کے مقابلوں کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے طلحہ طالب نے کہا کہ رواں سال اکتوبر میں کامن ویتھ چیمپیئن شپ آ رہی ہے جو آئندہ سال ہونے والے کامن ویلتھ گیمز کا کوالیفائنگ راؤنڈ ہے تو اس لیے یہ چیمپیئن شپ میرے لیے بہت ضروری ہے جبکہ اس کے بعد اسلامک گیمز، ورلڈ چیمپیئن شپ اور ایشین گیمز بھی آ رہے ہیں اور میں ایشین گیمز میں طلائی تمغہ جیتنے کے لیے پرعزم ہوں۔

ایک سوال جواب میں نوجوان ویٹ لفٹر نے کہا کہ میں گزشتہ 7سال سے عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہوں اور میری کارکردگی سب کے سامنے تھیں لیکن انہیں نظر انداز کیا گیا اور اگر آج فراہم کی جانے والی سہولیات ایک سال قبل فراہم کی گئی ہوتیں تو میں طلائی تمغہ جیت چکا ہوتا اور پورا پاکستان اس وقت میڈل کا جشن منا رہا ہوتا۔

انہوں نے حکومت سے گوجرانوالہ میں ویٹ لفٹنگ اکیڈمی بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ایسی اکیڈمی بنائی جائے جس میں صرف بین الاقوامی معیار کے آلات اور سامان ہوں، ویٹ لفٹنگ میں میرے علاوہ بھی کئی کھلاڑی ہیں جو مستحق ہیں لیکن ان کے پاس سپورٹ اور سہولیات نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لہٰذا گوجرانوالہ میں ایڈمی بنا کر وہاں بہترین کوچ لائیں جو ہم سب کو ٹریننگ دیں اور مقامی اور بین الاقوامی سطح پر میچ کھلا کر تیار کریں تو امید ہے کہ پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہو گا۔