اگر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کسی کو ‘دِلوں کا چیمپیئن’ کہا جا سکتا ہے تو وہ بلاشبہ پشاور زلمی ہے۔ ایسی ٹیم جس کے فینز بلاشبہ ملک کے ہر حصے میں ہیں بلکہ ایسے بھی ہیں جو رہتے کراچی اور لاہور میں ہیں، لیکن حمایت ‘زلمی’ کی کرتے ہیں۔
لیگ کے سپر اسٹارز سمجھے جانے والوں میں ہمیشہ پشاور کے کھلاڑی شامل ہوتے ہیں جیسا کہ ڈیرن سیمی ‘خان’ اسی ٹیم سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔ انہوں نے گزشتہ سال پاکستان کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز ‘نشانِ پاکستان’ تک حاصل کیا اور ساتھ ہی پاکستان کی شہریت بھی۔
پھر پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں سب سے زیادہ میچ جیتنے والی ٹیم بھی ہے۔ اس نے اپنے 57 میچوں میں 31 میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آج تک پی ایس ایل میں کوئی ٹیم اتنے میچ نہیں جیت پائی۔
لیکن پچھلے سال پشاور کی کارکردگی بہت مایوس کُن رہی۔ اس ناکامی کی کئی وجوہات ہیں جیسا کہ سیزن کے دوران سیمی کا اچانک قیادت چھوڑ دینا اور پھر اہم ترین میچوں میں شکست اور بارش کا سامنا ہونا۔ بہرحال، اب نئے ارادوں اور نئی امنگوں کے ساتھ زلمی ایک مرتبہ پھر میدان میں ہیں۔ قیادت دوبارہ وہاب ریاض کے کاندھوں پر ہے جبکہ ڈیرن سیمی ہیڈ کوچ کی حیثیت سے موجود ہوں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس مرتبہ پشاور زلمی نے کن کھلاڑیوں کا انتخاب کیا ہے؟ ایک مرتبہ پھر چیمپیئن بننے کے امکانات کتنے ہیں؟ کون سے خدشات درپیش ہوں گے؟ خوبیاں خامیاں کیا ہیں؟
سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اس مرتبہ کس ٹیم کا انتخاب ہوا ہے؟
اسکواڈ
پی ایس ایل 2021ء کے ڈرافٹ کے لیے پشاور زلمی نے 5 کھلاڑیوں کو برقرار رکھا، کپتان وہاب ریاض، تجربہ کار شعیب ملک، کامران اکمل، نوجوان حیدر علی اور انگلینڈ کے لیام لوِنگسٹن۔
اس کے بعد کھلاڑیوں کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو پہلی نظرِ انتخاب جنوبی افریقہ کے طوفانی بیٹسمین ڈیوڈ مِلر پر گئی۔ ڈائمنڈ کیٹیگری میں پشاور نے اپنی باؤلنگ سے دنیا کو حیران کرنے والے نوجوان افغان باؤلر مجیب الرحمٰن کا انتخاب کیا اور ساتھ ہی ویسٹ انڈیز کے شرفین ردر فرڈ کا بھی۔ گولڈ کیٹیگری میں عماد بٹ اور پھر سلور میں عمید آصف، ثاقب محمود، امام الحق، محمد عمران اور محمد عرفان کا انتخاب کیا گیا۔ ابرار احمد اور محمد عمران کا انتخاب ایمرجنگ کیٹیگری میں ہوا جبکہ سپلیمنٹری کھلاڑیوں میں روی بوپارا اور محمد عامر خان کا انتخاب کیا گیا۔
یوں مجموعی طور پر ایک متوازن ٹیم تخلیق کی گئی ہے، جس میں تجربہ کار اور جانے مانے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ نوجوان اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔
مکمل ٹیم
وہاب ریاض (کپتان)، شعیب ملک، کامران اکمل، لیام لوِنگسٹن، حیدر علی، ڈیوڈ ملر، مجیب الرحمٰن، شرفین ردرفرڈ، عماد بٹ، عمید آصف، ثاقب محمود، امام الحق، محمد عمران، محمد عرفان، ابرار احمد، محمد عمران، روی بوپارا اور محمد عامر خان۔
ماضی
پشاور زلمی کا پی ایس ایل ریکارڈ شاندار ہے۔ ٹیم نے مسلسل 3 مرتبہ فائنل کھیلا ہے اور ایک مرتبہ کامیابی حاصل کرکے چیمپیئن بھی بنی ہے۔ لیکن گزشتہ سیزن میں ناصرف پشاور بلکہ اس کے روایتی حریف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی کارکردگی بھی مایوس کُن رہی۔ یہی وہ ٹیمیں ہیں جو ابتدائی 4 سیزنز میں سب سے زیادہ کامیاب رہی تھیں لیکن پی ایس ایل کے مکمل طور پر پاکستان منتقل ہوتے ہی گویا کایا پلٹ گئی۔ سب سے ناکام ٹیمیں کراچی کنگز اور لاہور قلندرز فائنل تک پہنچیں، جبکہ کامیاب ترین کوئٹہ اور پشاور پہلے ہی مرحلے میں باہر ہوگئے۔ یہ محض اتفاق تھا یا واقعی پاکستان میں حالات اتنے مختلف ہیں؟ اس کا اندازہ رواں سیزن میں ہو جائے گا۔
پھر ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پشاور اور کوئٹہ ہی ایسی ٹیمیں ہیں جن کو اپنے ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کے سامنے کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ کراچی کنگز نے اپنے بیشتر میچ کراچی میں کھیلے، قلندرز نے لاہور میں، اسلام آباد یونائیٹڈ نے پنڈی اسٹیڈیم میں جبکہ سلطانز نے اپنے شہر ملتان میں۔ رہ گئی باقی 2 ٹیمیں یعنی پشاور اور کوئٹہ، تو ان کو تمام میچ اپنے حریفوں کے میدان میں کھیلنے پڑے۔ ہوسکتا ہے یہ اتنا بڑا ‘فیکٹر’ نہ لگتا ہو لیکن یہ کارکردگی پر ضرور اثر انداز ہوا ہوگا۔ ایک کھچا کھچ بھرے نیشنل اسٹیڈیم میں کہ جہاں ہزاروں تماشائی کراچی کنگز کے نعرے بلند کر رہے ہوں، وہاں حریف کو شکست دینا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔
پشاور کی کارکردگی میں زوال آنے میں ایک اور کردار غالباً قیادت کی تبدیلی کا بھی ہوگا۔ پچھلے سیزن کے دوران ڈیرن سیمی کا اپنے فٹنس مسائل کی وجہ سے قیادت چھوڑ دینا اور اچانک بوجھ وہاب ریاض کے کاندھوں پر منتقل ہو جانا بھی ایک اہم عنصر ہو سکتا ہے۔
امکانات
بہرحال، اپنے شاندار ماضی اور نام کی بدولت پشاور زلمی کے امکانات اب بھی کافی ہیں۔ ‘فین سپورٹ’ کے معاملے میں زلمی پاکستان کی بہترین ٹیم ہے اور اس سال بھی انہوں نے چند ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے ان کے پرستاروں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے لیکن اصل کام ہے میدان میں کچھ کر دکھانے کا۔
گزشتہ سال آخری مرحلے میں ملتان اور لاہور کے خلاف 2 اہم میچوں میں شکست کی وجہ سے زلمی کی پیشرفت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس لیے رواں سال فیصلہ کُن مرحلے پر سنبھلنا ہوگا ورنہ وہی ہوگا جو پچھلے سال ہوا۔
نمایاں کھلاڑی
پی ایس ایل تاریخ میں کارکردگی کے لحاظ سے نمایاں ترین کھلاڑی زلمی کے پاس ہی ہیں، سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین، سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر اور وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ شکار کرنے والے وکٹ کیپر تک، سب ‘پشاوری’ ہیں۔
انفرادی و اجتماعی دونوں لحاظ سے پشاور زلمی کا ریکارڈ شاندار ہے لیکن اصل مسئلہ نئے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کا ہے۔ شاید اسی لیے گزشتہ سال زلمی مکمل طور پر بے سمت نظر آئے۔
بہرحال، پی ایس ایل کے چھٹے سیزن کے لیے بلاشبہ پشاور زلمی کے سب سے نمایاں کھلاڑی ڈیوڈ ملر ہی ہوں گے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ‘ڈرافٹ’ میں پشاور کا پہلا انتخاب تھے۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ملر اس وقت فارم میں دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف حالیہ 2 ٹی20 میچوں میں 25 اور 85 رنز کی 2 ناٹ آؤٹ اننگز کھیلی ہیں۔ صرف 45 گیندوں پر 85 رنز کی طوفانی اننگز، جس میں 7 چھکے بھی شامل تھے، دیکھنے کے قابل تھی اور اس اننگ نے واقعی پشاور زلمی کے کئی حریفوں کو پریشان کردیا ہوگا۔ اگر ملر چل پڑے تو اس سے پشاور کی نسبتاً کمزور نظر آنے والی بیٹنگ لائن کو ‘لائف لائن’ مل جائے گی۔
چھپا رستم
افغانستان کے نوجوان اسپنر مجیب الرحمٰن اس سیزن میں اہم ترین کھلاڑی کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔ صرف 19 سالہ مجیب کو راشد خان کے بعد افغانستان کا نیا ‘اسٹار’ قرار دیا جا رہا ہے۔ ابھی حالیہ ‘بگ بیش لیگ’ میں وہ برسبین ہِیٹ کی جانب سے کھیلے تھے اور صرف 8 میچوں میں 14 وکٹیں حاصل کیں۔ اس میں ایک میچ میں 15 رنز دے کر 5 وکٹوں کا کارنامہ بھی شامل تھا، جو پورے سیزن میں کسی بھی باؤلر کی بہترین انفرادی کارکردگی تھی۔
ایک ایسی باؤلنگ لائن میں کہ جس میں وہاب ریاض، محمد عرفان، عمید آصف اور ثاقب محمود پہلے سے شامل ہوں، اور روی بوپارا اور شعیب ملک جیسے آل راؤنڈر بھی، وہاں مجیب الرحمٰن جیسے عمدہ باؤلر کی موجودگی غضب ڈھا سکتی ہے۔
ایک اور کھلاڑی انگلینڈ کے لیام لوِنگسٹن ہوسکتے ہیں۔ واحد غیر ملکی کھلاڑی کہ جنہیں پشاور زلمی نے اس سیزن کے لیے اپنے اسکواڈ میں برقرار رکھا ہے۔ حالیہ بگ بیش لیگ میں لوِنگسٹن کی شاندار کارکردگی ہی پرتھ اسکارچرز کے فائنل تک پہنچنے کی وجہ بنی۔ انہوں نے اہم میچ میں 39 گیندوں پر 77 رنز کی فاتحانہ اننگز کھیلی اور پھر فائنل میں بھی 45 رنز بنائے۔ بگ بیش کے اس سیزن میں کُل 14 میچوں میں لوِنگسٹن نے 30 سے زیادہ کی اوسط اور تقریباً 134 کے اسٹرائیک ریٹ سے 426 رنز بنائے اور اگر وہ ایسی کارکردگی دہرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو شاید پشاور زلمی کو کوئی نہیں روک پائے گا۔
کمزور کڑی
ہوسکتا ہے آپ اسے کمزوری نہیں بلکہ خوبی سمجھیں لیکن ٹی20 جیسے تیز رفتار فارمیٹ میں ‘جوان خون’ کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جس کی زلمی میں شدید کمی ہے۔ اس کے بیشتر اہم کھلاڑی زائد العمر ہیں۔ یعنی کپتان وہاب ریاض 35 سال کے اور دیگر 2 اہم باؤلرز محمد عرفان 38 اور عمید آصف 36 سال کے ہیں۔ وکٹ کیپر اور اہم بیٹسمین کامران اکمل 39 اور آل راؤنڈرز روی بوپارا 35 اور شعیب ملک 39 سال کے ہیں۔
یہ سب وہ کھلاڑی ہیں جو ممکنہ طور پر فرسٹ الیون کا حصہ ہوں گے، یعنی آدھی ٹیم 35 سال سے اوپر کی ہوگی۔ بلاشبہ تجربہ بہت اہم ہے، لیکن ان کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کا خدشہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو پشاور کے لیے بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔
پھر حسن علی کو چھوڑنے کی غلطی پشاور کو بہت مہنگی پڑے گی۔ وہ اس وقت بہترین فارم میں ہیں اور وہاب ریاض کے ساتھ حسن علی کی جوڑی ہی تھی کہ جس نے ابتدائی 4 سیزنز میں پشاور زلمی کی کئی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
پشاور زلمی میں شامل انگلینڈ کے ثاقب محمود اور ویسٹ انڈین شین ردرفرڈ ذرا کم تجربہ کار ہیں اس لیے باؤلنگ میں سارا بوجھ وہاب ریاض کے کاندھوں پر آئے گا۔ دیکھتے ہیں قیادت کے اضافی دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے وہ کیا کارکردگی دکھا پاتے ہیں۔
پشاور زلمی کا پہلا مقابلہ 21 فروری کو لاہور قلندرز کے خلاف ہے اور ایک حوصلہ افزا آغاز کے لیے ابتدائی میچوں میں کامیابی بہت ضروری ہے۔