صوبائی دارالحکومت کی عدالت میں جج جواد الحسن نے شہباز شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت ہوئی، جہاں شہباز شریف، حمزہ شہباز و دیگر ملزمان کو پیش کیا گیا۔
اس موقع پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے بیرسٹر عثمان راشد چیمہ نے فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کی جبکہ شہباز شریف کی طرف سے امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت عدالت میں موجود شہباز شریف نے کہا کہ یہ جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ ہے اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈھائی سال سے میرے خلاف تحقیقات چل رہی ہیں، میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہوں، میرے خلاف بوگس اور عدم شواہد کی بنیاد پر کیس بنایا گیا۔
عدالت میں شہباز شریف نے نیب پر الزام لگایا کہ وہ سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی انتقام کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے رمضان شوگر ملز کیس ہو، آشیانہ کیس ہو یا کوئی دوسرا مقدمہ، میرے خلاف آدھے دھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوسکی۔
شہباز شریف نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ میری ٹیم نے اربوں روپے عوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کیے، اللہ گواہ ہے ہزاروں ارب روپے کے منصوبے لگائے لیکن یہ لوگ ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ، کرپشن ثابت نہیں کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ ریفرنس میں لگائے گئے الزامات غلط ہیں میں اپنے دفاع میں ٹھوس شواہد پیش کروں گا۔
دوران سماعت شہباز شریف نے کہا کہ اورنج لائن منصوبے میں 600 ملین (60 کروڑ) ڈالر کی بچت کی، میرے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جلد باز شخص ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے پاکستان کو خطے میں آگے لیکر جانا ہے، ہندوستان کو معاشی راستے کے مات دینی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے شہباز شریف پر فرد جرم عائد کی، جس پر انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا۔
ساتھ ہی عدالت نے حمزہ شہباز شریف 10 ملزمان پر بھی فرد جرم عائد کی، تاہم رکن پنجاب اسمبلی نے بھی صحت جرم سے الزام کیا۔
حمزہ شہباز نے مؤقف اپنایا کہ چارج شیٹ میں میرے اوپر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے ہیں۔ منی لانڈرنگ ریفرنس جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے، نیب سیاسی انجینئرنگ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ مجھے آج تک فزیوتھراپسٹ نہیں ملا، جیل والے مجھے کل ہسپتال لے گئے، قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اللہ کے بعد جج کی زمہ داری ہے کہ ہمارا خیال رکھیں۔
جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق فیصلہ ہوگا اس معاملے پر 13 نومبر کو سماعت کریں گے۔
بعد ازاں عدالت نے فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد شہباز شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس میں نیب کے 3 گواہان کو 26 نومبر کو طلب کرلیا۔ خیال رہے کہ آج کی سماعت میں عدالت نے کیس کے مجموعی 16 ملزمان میں سے 10 پر فرد جرم عائد کی۔
ان 16 ملزمان میں شہباز شریف خاندان کے 7 اراکین بھی شامل ہیں۔
عدالت کی جانب سے جن ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی ان میں شہباز شریف، حمزہ شہباز، جویریہ علی، فضل داد عباسی، راشد کرامت، محمد عثمان، مسرور انور، نثار احمد، شعیب قمر، قاسم قیوم شامل ہیں۔
مذکورہ ریفرنس میں نصرت شہباز، سلیمان شہباز، رابعہ عمران، ہارون یوسف، طاہر نقوی اور علی احمد پر عدم پیشی کی وجہ سے فرد جرم عائد نہیں ہوسکی۔
یاد رہے کہ 29 ستمبر کو منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت مسترد ہونے کے بعد نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی تھی تاہم 20 اکتوبر کو انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
منی لانڈرنگ ریفرنس
خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کی اہلیہ، دو بیٹوں، بیٹیوں اور دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
اس ریفرنس میں مجموعی طور پر 20 لوگوں کو نامزد کیا گیا جس میں 4 منظوری دینے والے یاسر مشتاق، محمد مشتاق، شاہد رفیق اور احمد محمود بھی شامل ہیں۔
تاہم مرکزی ملزمان میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت، ان کے بیٹے حمزہ شہباز (پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر)، سلمان شہباز (مفرور) اور ان کی بیٹیاں رابعہ عمران اور جویریہ علی ہیں۔
ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔
اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔
اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔