قومی کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر محمد حفیظ بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہوگئے، اور جاتے جاتے وہ ایک مرتبہ پھر میچ فکسرز کے حوالے سے اپنا سخت پیغام دے گئے۔
شاہینوں کے شہر سرگودھا سے تعلق رکھنے والے محمد حفیظ نے 2019ء ورلڈ کپ کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ 2020ء میں ہونے والے ٹی20 ورلڈ کپ کے بعد بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیں گے، لیکن پھر کورونا وائرس کے سبب 2020ء میں ورلڈ کپ کا انعقاد نہ ہوا اور یوں پروفیسر کا یہ فیصلہ بھی مؤخر ہوگیا۔
محمد حفیظ اپنے کیریئر کا اختتام ٹاپ لیول کی کرکٹ کھیل کے کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
کیریئر
محمد حفیظ نے اپنے کیریئر کا آغاز 2003ء میں زمبابوے کے خلاف کیا۔ ابتدا میں وہ کوئی نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکے اور ٹیم سے اِن آؤٹ ہوتے رہے، لیکن ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل کھیلنے کی وجہ سے اور اچھا پرفارم کرنے کی بنیاد پر محمد حفیظ نے 2010ء میں دورہ انگلینڈ کے لیے قومی ٹیم میں کم بیک کیا اور پھر اس کے بعد مشکل ہی ٹیم سے ڈراپ ہوئے۔
2010ء کی اسی انگلینڈ سیریز میں اسپاٹ فکسنگ کیس کے بعد مصباح الحق کو قومی ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا۔ اب چونکہ مصباح الحق اور محمد حفیظ نے اپنی ساری ڈومیسٹک کرکٹ اکٹھے ہی کھیلی تھی اس لیے دونوں نے اچھی حکمتِ عملی کے ساتھ ٹیم کے مورال کو بلند رکھا اور سفر کو اچھی طرح سے آگے بڑھانے میں کامیاب رہے۔
محمد حفیظ نے اپنے 18 سالہ کیریئر میں 55 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں 10 سنچریوں اور 12 نصف سنچریوں کی مدد سے 37.64 کی اوسط کے ساتھ 3652 رنز بنائے۔ اسی طرح پروفیسر نے 218 ایک روزہ میچوں میں 11 سنچریوں اور 38 نصف سنچریوں کی مدد سے 32.90 کی اوسط کے ساتھ 6614 رنز بنائے جبکہ ٹی20 فارمیٹ میں 115 میچوں میں وہ 14 نصف سنچریوں کی مدد سے 26.23 کی اوسط کے ساتھ 2440 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے۔
محمد حفیظ نے 2012ء میں سری لنکا اور 2014ء میں بنگلہ دیش میں کھیلے جانے والے ٹی20 ورلڈ کپ سمیت 29 میچوں میں قومی ٹیم قیادت کی جن میں 17 میچوں میں پاکستان ٹیم کامیاب رہی لیکن دونوں ورلڈ کپ ایونٹس میں قومی ٹیم کامیاب نہ ہوسکی۔
2012ء ورلڈ کپ میں سری لنکا کے خلاف کھیلے جانے والے سیمی فائنل میچ میں آل راؤنڈر عبدالرزاق کو فائنل الیون میں نہ کھلانے کے فیصلے پر محمد حفیظ اور عبدالرزاق میں کافی تناؤ بھی رہا اور اس موقع پر شائقین کرکٹ کی جانب سے محمد حفیظ کو کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اس موقع پر کپتان کا کُھل کر ساتھ دیا۔
عبدالرزاق کو ٹی20 ٹیم سے ڈراپ کرنا یقیناً پروفیسر کا اچھا فیصلہ نہیں تھا، اور جب انہوں نے اس فیصلے پر زیادہ تنقید کی تو کرکٹ بورڈ نے عبدالرزاق پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا تھا۔
لیکن کرکٹ بورڈ کا حفیظ پر اعتماد زیادہ دیر نہ رہا کیونکہ جب 2014ء ٹی20 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم پہلے ہی راؤنڈ میں ایونٹ سے باہر ہوگئی تو حفیظ نے اپنے عہدے سے استعفی پیش کیا جو پی سی بی نے فوری طور پر قبول کرلیا۔
میچ فکسرز کے خلاف سخت مؤقف
2016ء میں اسپاٹ فکسنگ میں اپنی 5 سالہ سزا مکمل کرنے کے بعد محمد عامر کو جب ٹیم میں شامل کیا گیا تو محمد حفیظ اور اظہر علی نے قومی کرکٹ ٹیم کے کیمپ کا بائیکاٹ کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ فکسنگ کے ذریعے ملک کا نام بدنام کرنے والے کھلاڑیوں کو دوسرا موقع نہیں ملنا چاہیے۔
محمد حفیظ کے اس مؤقف پر پاکستان اور بین الاقوامی میڈیا میں کافی بحث بھی ہوئی لیکن پی سی بی نے محمد عامر کو کھلانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس حوالے سے حفیظ نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں کھل کر بات بھی کی۔
حفیظ سے جب حالیہ پریس کانفرنس کے دوران پوچھا گیا کہ آپ کے کیریئر میں سب سے تکلیف دہ لمحہ کونسا تھا تو انہوں نے بتایا کہ جب میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو دوبارہ ٹیم میں شامل کرنے کی بات ہوئی تو انہوں نے اس پر اعتراض کیا لیکن بورڈ کی جانب سے واضح طور پر یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ اگر آپ نے کھیلنا ہے تو ٹھیک، ورنہ وہ لوگ تو لازمی ٹیم کی طرف سے کھیلیں گے۔
ڈسپلن کے معاملات اور پاکستان کی عزت کے معاملے میں محمد حفیظ نے پورے کیریئر میں کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ میں نے ذاتی طور پر ان کے ساتھ کافی وقت گزارا ہے اور حفیظ کے ساتھ گزرے وقت میں بہت مرتبہ ان سے اس معاملے پر گفتگو بھی ہوئی اور ان کا اس پر سخت مؤقف رہا کہ پاکستان اور گرین شرٹ کا نام بدنام کرنے والوں کو کبھی بھی دوسرا موقع نہیں ملنا چاہیے۔
مجھے آج بھی 2012ء میں ڈھاکا کے شیر بنگلہ اسٹیڈیم پر کھیلے جانے والا ایشیا کپ کا فائنل یاد ہے جس میں قومی ٹیم نے 2 رنز سے کامیابی حاصل کی تھی۔ میں خود بھی وہاں موجود تھا اور جب قومی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 236 رنز بنائے تو محمد حفیظ کپتان نہ ہونے کے باوجود کھلاڑیوں کو ہمت اور حوصلہ دے رہے تھے اور انہیں بتارہے تھے کہ کس طرح حریف پر ڈباؤ برقرار رکھنا ہے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ ان کوششوں کے نتیجے میں قومی ٹیم 12 سال بعد ایشیا کپ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
اس فائنل میں میدان تماشائیوں سے مکمل طور پر بھرا ہوا تھا اور بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ بھی میدان میں موجود تھیں، لیکن چونکہ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کسی بھی ایونٹ کا پہلی دفعہ فائنل کھیل رہی تھی اس لیے میچ کے بعد شائقین اور بنگال کھلاڑی بہت افسردہ اور روتے ہوئے نظر آئے۔
13ء-2012ء کے دورہ بھارت میں محمد حفیظ نے بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور اس سیریز میں محمد حفیظ پہلے سے مختلف کھلاڑی نظر آئے اور اپنی اس کارکردگی کی وجہ سے پاکستان ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر 2014ء میں ہی محمد حفیظ نے سری لنکا کے خلاف ایک سیریز میں تین سنچریاں اسکور کیں اور اس سیریز کو بھی یادگار بنا دیا۔ یہ عرصہ حفیظ کے لیے بہت یادگار ثابت ہوا کیونکہ 2014ء میں محمد حفیظ کو آئی سی سی کی ایک روزہ ورلڈ الیون ٹیم میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
پابندیوں کا سامنا
لیکن جہاں 2014ء محمد حفیظ کے لیے بہت یادگار رہا، وہیں اگلے دو، تین سال ایسے تھے جنہیں حفیظ بالکل بھی یاد نہیں کرنا چاہیں گے کیونکہ اس سالوں میں حفیظ کے باؤلنگ ایکشن پر 3 مرتبہ اعتراض اٹھے، لیکن حفیظ نے ہمت ہارنے کے بجائے کوشش کی اور ہر بار اس پابندی سے باہر نکلتے رہے۔
سب سے پہلے یہ اعتراض 2015ء میں اٹھا، پھر 2017ء میں یہی الزام ایک مرتبہ پھر لگایا گیا اور دونوں مرتبہ ایسا آئی سی سی کی جانب سے کیا گیا۔ جب حفیظ نے دونوں مرتبہ خود کو ٹھیک ثابت کرلیا تو اگلی مرتبہ انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے 2019ء میں اس وقت ٹی20 بلاسٹ میں محمد حفیظ پر باؤلنگ کی پابندی لگائی جب وہ مڈل سیکس کی نمائندگی کررہے تھے، لیکن یہاں بھی حفیظ نے ہمت نہیں ہاری اور 2020ء میں وہ اپنا ایکشن کلیئر ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
محمد حفیظ ایک شاندار کھلاڑی اور پاکستان کرکٹ سے جذباتی محبت کرنے والے کھلاڑی ہیں، اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جب تک وہ فٹ رہے فرنچائز کرکٹ کھیلتے رہیں گے۔
محمد حفیظ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے آئندہ ایڈیشن میں لاہور قلندرز کی جانب سے ایکشن میں دکھائی دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں کوچنگ سائیڈ پر آنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے کوچنگ کورسز اور تمام لوازمات مکمل کریں گے۔