پاکستان نے ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء سے قبل اپنے پہلے وارم اپ مقابلے میں دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ گوکہ وارم اپ مقابلے کسی بھی ٹیم کی تیاریوں کی حقیقی عکاسی نہیں کرتے، لیکن پھر بھی یہ ایک بڑے میدان پر قدم رکھنے سے پہلے ‘لہو گرم رکھنے کا بہانہ’ ضرور فراہم کرتے ہیں۔
پہلا وارم اپ
ویسٹ انڈیز اس مرتبہ بھی ورلڈ کپ میں بھرپور تیاری کے ساتھ آیا ہے۔ ویسٹ انڈین اسکواڈ میں نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کرس گیل، کیرون پولارڈ اور آندرے رسل سے لے کر ڈیوین براوو، لینڈل سیمنز اور آندرے فلیچر تک تمام گھاگ کھلاڑی موجود ہیں۔ لیکن پاکستان کے سامنے کسی کی ایک نہ چلی۔
ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کے باوجود ویسٹ انڈین کھلاڑی اپنا رنگ نہ جما سکے اور 13 اوورز میں صرف 63 رنز ہی بنا پائے۔ سیمنز اور گیل ہی کو دیکھ لیں، جنہوں نے صرف 38 رنز بنائے لیکن 53 گیندیں یعنی لگ بھگ نصف اوورز استعمال کرلیے۔
آخر میں کپتان کیرون پولارڈ نے حالات کو قابو کرنے کی کوشش کی لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ انہوں نے 10 گیندوں پر 23 رنز بنائے جن میں حارث رؤف کو لگائے گئے مسلسل 5 چوکے بھی شامل تھے لیکن بات نہیں بنی۔ 131 رنز ایسا ہدف نہیں ہے کہ جس پر پاکستان بلکہ کسی بھی ٹیم کو روکا جاسکے اور ہوا بھی یہی۔
پاکستان نے صرف 3 وکٹوں کے نقصان پر ہدف حاصل کرلیا۔ اس میں کپتان بابر اعظم کی خوبصورت نصف سنچری بھی شامل تھی، جس کی جھلک میدان میں آنے والی بھارتی کرکٹ ٹیم نے بھی دیکھی۔ ان کے علاوہ فخر زمان نے 24 گیندوں پر فیصلہ کن 46 رنز بنائے اور پاکستان نے 16ویں اوور میں ہی ہدف کو جا لیا۔
پاکستان اور ٹی20 ورلڈ کپ
پاکستان ٹی20 انٹرنیشنل کرکٹ کی کامیاب ترین ٹیموں میں سے ایک رہا ہے اور اس وقت بھی عالمی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے۔ لیکن پہلے چاروں ٹی20 ورلڈ کپ ٹورنامنٹس کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی واحد ٹیم کو نجانے کس کی ’نظر‘ لگ گئی اور گزشتہ دونوں مرتبہ پاکستان ورلڈ کپ میں بہت بُری طرح ناکام ہوا۔
رواں سال کا ٹی20 ورلڈ کپ 5 سال بعد ہونے والا پہلا ٹی20 ورلڈ کپ ہوگا۔ اس سے پہلے ٹی20 ورلڈ کپ ہر 2 سال بعد کھیلا جاتا تھا لیکن پھر فیصلہ کیا گیا کہ ہر طرز کی کرکٹ میں سب سے بڑا ٹورنامنٹ 4، 4 سال بعد ہوگا۔ یوں 2016ء کے بعد اگلا ٹورنامنٹ 2020ء میں ہونا تھا لیکن اولمپکس کی طرح ٹی20 ورلڈ کپ بھی کورونا وائرس کی نذر ہوگیا۔
یہ ورلڈ کپ پہلے آسٹریلیا میں کھیلا جانا تھا۔ پہلے میزبان بدلا، قرعہ فال بھارت کے نام نکلا لیکن کورونا وائرس نے وہاں بھی ڈیرے ڈال رکھے تھے اس لیے حتمی فیصلہ متحدہ عرب امارات کے حق میں کیا گیا۔ گوکہ عملاً میزبانی بھارت کے پاس ہی ہے، لیکن میدان امارات کے استعمال ہوں گے، جہاں کھیلنے کا سب سے زیادہ تجربہ قومی ٹیم کے پاس ہے۔
گزشتہ 2 ٹورنامنٹس کی بھیانک داستان
کسی خوش فہمی میں پڑنے کے بجائے گزشتہ دو ٹی20 ورلڈ کپ ٹورنامنٹس کی کارکردگی ملاحظہ کرلیں کہ جسے دیکھ کر جی متلانے، دل گھبرانے اور پسینہ آنے لگتا ہے۔
پاکستان 2007ء، 2009ء، 2010ء اور 2012ء، ان چاروں ابتدائی ٹی20 ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں کم از کم سیمی فائنل تک ضرور پہنچا۔ پہلے دو میں تو فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا اور ایک میں ورلڈ چیمپیئن بھی بنا، لیکن 2010ء میں مائیکل ہسی کی ناقابلِ فراموش اننگز نے اسے فائنل کی دوڑ سے ایسا باہر کیا کہ پھر دوبارہ کبھی فائنل تک نہیں پہنچ سکا۔
2012ء میں حیران کن طور پر سری لنکا کے ہاتھوں شکست نے اس کے لیے فائنل کا راستہ بھی روک دیا۔ 2014ء میں بنگلہ دیش میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں پاکستان اپنے 4 میں سے صرف 2 گروپ میچ جیت پایا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف جس مقابلے میں ‘کرو یا مرو’ والی صورتحال کا سامنا تھا، اسی میں بدترین کارکردگی دکھائی اور صرف 82 رنز پر ڈھیر ہوکر اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔
اس سے بھی بُری کارکردگی اگلے ورلڈ کپ میں دکھائی، یعنی 2016ء میں ہونے والے آخری ورلڈ ٹی20 میں۔ جہاں قومی ٹیم 4 میں سے 3 میچ ہار گئی۔ واحد کامیابی اپنے پہلے مقابلے میں بنگلہ دیش کے خلاف حاصل کی اور پھر بھارت، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے شکست کھا کر اس کوچہ کرکٹ سے ‘بڑے بے آبرو ہو کر‘ نکلا۔
2 ورلڈ کپس کے درمیانی 5 سال
بہرحال، اس عرصے میں بہت سا پانی پُلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔ 5 سال ایک بہت طویل دورانیہ ہوتا ہے۔ آپ اسکواڈ پر ہی ایک نظر دوڑائیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ تب شاہد آفریدی کپتان تھے اور عمر اکمل وکٹ کیپر، محمد عرفان اور وہاب ریاض اسٹرائیک باؤلر تھے محمد سمیع اور انور علی ان کے ساتھ۔ البتہ چند نام اب بھی موجود ہیں، مثلاً سرفراز احمد، محمد حفیظ، شعیب ملک اور عماد وسیم۔
پھر اس دوران ٹیم کی قیادت میں بھی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہم سرفراز احمد کا دور گزار چکے اور قیادت کا تاج اب بابر اعظم کے سر پر ہے۔ کوچ کے معاملے میں بھی پچھلے چند سالوں میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ پہلے مکی آرتھر کا ایک شاندار دور تھا جس میں پاکستان نے ٹی20 میں بڑی کامیابیاں سمیٹیں لیکن اس کے بعد مصباح الحق کی کوچنگ کا ایک مایوس کن عہد آیا جس میں پاکستان اپنے آدھے ٹی20 میچ بھی نہیں جیت پایا۔
ورلڈ کپ کی تیاریاں اور مایوسی در مایوسی
اب ورلڈ کپ سے عین پہلے کوچ بدل چکا ہے بلکہ بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ ’تبدیلی‘ پاکستان کے امکانات کے لیے کیسی ثابت ہوگی؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس ورلڈ کپ کی تیاریاں پاکستان کے لیے خوش کن نہیں رہیں۔ بھرپور تیاریوں کے لیے پاکستان نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے دوروں پر بہت انحصار کر رہا تھا۔ نیوزی لینڈ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے دورے پر آیا تھا لیکن جس دن دورے کا آغاز ہونا تھا، اسی دن میچ سے چند گھنٹے پہلے اچانک دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔
پھر انگلینڈ کو بھی موقع مل گیا کہ وہ بھی پاکستان کے تاریخی دورے سے انکار کردے۔ یوں دو اہم ٹیموں کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر، ورلڈ کپ سے عین پہلے، دو سیریز جو پاکستان کو ورلڈ کپ کی بہترین تیاری فراہم کرتیں، ممکن نہ ہوسکیں۔ اب لے دے کر پاکستان کے پاس ورلڈ کپ کی تیاری کا واحد سہارا یہ دو وارم اپ میچ ہی رہ گئے ہیں۔
پہلے مقابلے میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کامیابی سے پاکستان کو ورلڈ کپ کا ‘پرفیکٹ’ آغاز ملا ہے۔ بدھ کو جنوبی افریقہ کے خلاف آخری وارم اپ کی کارکردگی ایک بڑے مقابلے سے قبل لہو گرمانے کا آخری موقع ہوگی کیونکہ اس کے بعد سامنا ہوگا روایتی حریف بھارت سے کہ جن کے خلاف کامیابی پاکستان کے لیے ورلڈ کپ کا شایانِ شان آغاز ثابت ہوگی۔