بابراعظم کے خلاف سنگین الزامات، خاتون کا مقدمے کے اندراج کیلئے عدالت سے رجوع

0
1120

لاہور: پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرنے والی خاتون نے اندراج مقدمہ کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کردی، جس پر عدالت نے ایس ایچ او نصیرآباد سے رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔

حامزہ مختار نے سیشن کورٹ میں اندراج مقدمہ اور ہراساں کرنے سے روکنے کی درخواست دائر کی ہے۔

دائر درخواستوں میں بابر اعظم، محمد اعظم، فیصل اعظم، کامل اعظم اور محمد نوید کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سی سی پی او لاہور کو اندارج مقدمہ کی درخواست دی لیکن عملدرآمد نہیں ہوا۔

حامزہ مختار نامی خاتون نے سی سی پی او لاہور کو ایک درخواست میں فریق بناتے ہوئے کہا کہ ملزم بابر نے انہیں شادی کے بہانے 2012 سے مستقل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس دوران وہ حاملہ بھی ہوئیں اور بعدازاں انہوں نے ملزم کی ایما پر اسقاط حمل بھی کروایا۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر کے اندرا ج کی کوشش کی گئی لیکن پولیس نے اس سلسلے میں کوئی شکایت درج نہ کی۔

درخواست میں تھانہ نصیر آباد پولیس کو بابر اعظم کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

مذکورہ درخواست پر ایڈیشنل سیشن جج نعمان محمد نعیم نے ایس ایچ او نصیر آباد سے رپورٹ طلب کر لی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایس ایچ او بتائیں کہ درخواست گزار نے مقدمے کے اندراج کے لیے رابطہ کیا تھا یا نہیں، اگر کیا تھا تو کارروائی شروع کیوں نہیں کی گئی، مذکورہ معاملے میں مزید کوئی تفتیش کی گئی یا نہیں۔

اس کے علاوہ حامزہ مختار نے ہراساں کرنے کے خلاف بابر اعظم کے اہلخانہ کے خلاف بھی درخواست دائر کی ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بابر اعظم کے اہل خانہ انہیں ہراساں کر رہے ہیں لہٰذا عدالت انہیں ہراساں کرنے سے روکنے کا حکم دے۔

ایڈیشنل سیشن جج عابد رضا خان نے ہراساں کرنے کی درخواست پر بھی جواب طلب کر لیا۔

عدالت نے ہراساں کرنے سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے ایس پی کمپلینٹ سے 5 دسمبر کو جواب طلب کرلیا۔

گزشتہ ہفتے خاتون نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بابر اعظم پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

خاتون نے مؤقف اپنایا تھا کہ 2010 میں بابر اعظم نے انہیں پروپوز کیا جسے انہوں نے قبول کر لیا، ہم شادی کا فیصلہ کرچکے تھے لہٰذا ہم نے اپنے خاندانوں کو آگاہ کیا لیکن دونوں کے خاندانوں نے صاف انکار کیا جس کے بعد بابر اعظم اور میں نے کورٹ میرج کا فیصلہ کیا۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2011 میں بابر اعظم مجھے کورٹ میرج کا کہہ کر میرے گھر سے بھگا کر لے گیا اور ہم مختلف مقامات پر کرائے کے مکانوں میں قیام پذیر رہے۔

خاتون کا کہنا تھا کہ اصرار کے باوجود بابر اعظم نے ان سے نکاح نہیں کیا اور دعویٰ کیا کہ 2014 سے پہلے نوکری کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا سیلون کھولا جس سے وہ کرکترز کے اخراجات برداشت کرتی رہیں۔

حامزہ نے دعویٰ کیا کہ 2014 میں جب بابر اعظم کا نام پاکستانی کرکٹ ٹیم میں آیا تو ان کا رویہ آہستہ آہستہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا، میں 2016 میں حاملہ ہوگئی تھی جب میں نے بابر اعظم کو بتایا تو سن کر ان کا رویہ بہت عجیب ہوگیا، مجھے مارا پیٹا اور میں ان کے اصرار پر اسقاط حمل پر مجبور ہو گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘بالآخر تنگ آکر 2017 میں، میں نے بابر اعظم کے خلاف پولیس رپورٹ کی اور شکایت دیکھنے والے افسر نے بابر اعظم کو پیش کرنے کا کہا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے تھے لیکن اسی رات بابر اعظم نے اس افسر کے سامنے ہمارے مشروط صلح نامے پر دستخط کروائے تھے، جس میں شرط یہ طے کی گئی تھی کہ بابر مجھ سے شادی کرلیں گے’۔

انہوں نے کہا کہ ’10 روز قبل میں نے ان کے خلاف دوبارہ شکایت درج کروائی، 20 نومبر کو بابراعظم نے بیرون ملک جانے سے قبل مجھے فون کرکے کہا تھا کہ اگر تم پولیس کے پاس گئی یا اب شادی کا مطالبہ کیا تو تم جان سے جاؤ گی اور تمہیں یہ بھی نہیں پتا کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا’۔

حامزہ کا کہنا تھا کہ ’10 سال تک حد سے زیادہ زیادتی کے بعد اب میں یہاں انصاف کے لیے آئی ہوں’۔